خرابی کب پیدا ہوتی ہے ؟
یوسف الماس
گروہ بندی اور جماعت سازی کی سب سے مضبوط بنیاد نظریہ، سب سے کمزور بنیاد دولت اور سب سے ناپسندیدہ بنیاد رنگ، نسل ، زبان اور علاقہ کی عصبیت ہے۔ وقت اور حالات کے ساتھ گروہ بندی کی کئی ایک اور بنیادیں بھی سامنے آئیں۔ جو اپنی نوعیت میں درست بھی تھیں اور غلط بھی۔ خواہ وہ کاروباری ہوں یا مذہبی، سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، رفاہی ہوں یا تعلیمی، ہر گروہ کی کامیابی اور ناکامی کا بڑا انحصار اس کی لیڈرشپ پر ہوگا۔ بہت اعلیٰ وا رفع مقصد ہونے کے باوجود گروہ ناکام ہوجاتے ہیں اور بہت ہی سطحی مقصد لے کر اٹھنے والے گروہ اپنی مضبوط لیڈرشپ کی وجہ سے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیڈرشپ سے مراد ایک فرد بھی ہے اور اس کے ساتھی بھی ہیں۔ لیڈر کے ساتھی ہوں یا گروہ کے عام افراد، سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اپنی جبلت، مزاج، فطرت، اخلاق، تربیت، تعلیم، پیشے اور رویے کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔ ان کی ترجیحات اور ترتیبات اپنی اپنی ہوں گی۔
ان حالات میں لیڈر ہی کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی کو ہر چھوٹے بڑے معاملے کو حل کرنا ہے اور اپنی منزل کو قریب تر کرنا ہے۔ اب اگر لیڈر خود اپنے لیے عقبی(چور) دروازے کا راستہ لیتا ہے تو دوسروں کو اس سے کیسے بچائے گا۔ جب لیڈر کے دل میں دولت کی حرص گہری جڑیں بنا لے ، اس کی ہر سرگرمی کے پیچھے مال اکٹھا کرنے کے طور طریقے چھپے ہوئے ہوں تو سارا گروہ اندرونی انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ سوسائٹی کے کمزور چھوٹی ذاتوں یا پسماندہ ذہنیت کے حامل طبقے میں سے کوئی لیڈر بنے گا تو پھر سماج یا اس گروہ کے سارے لوگ کیسے اس کے سامنے جھکیں گے۔ خود لیڈر اپنا احساس کمتری کیسے دور کرے گا۔ وہ تو اپنی کمزوری کا بدلہ اپنے گروہ کے مختلف لوگوں سے لے گا اور اس کی لیڈرشپ وحدت کے بجائے تقسیم کا باعث بنے گی۔
لوگوں سے غصہ اور کینہ جب لیڈر کی زبان پر آنے لگے تو خرابی سے بچا نہیں جا سکتا اس لیے کہ یہ باتیں لیڈر کی ذہنی کیفیت کا اظہار ہوتی ہیں۔ جب لیڈر حکمرانی اور طاقت کے لالچ میں اندھا ہوجائے ، ہر جائز اور ناجائز کام کو اپنے لیے روا جاننے لگے اور اندر ہی اندر خاموشی اور سازش کے انداز میں اپنے معاملات کو چلانے لگے تو اس گروہ کو ناکامی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس مرحلے پر خرابی روکنا تقریبًا ناممکن ہوجاتا ہے۔