لیڈر شکست کب کھاتا ہے؟
یوسف الماس
یوں تولیڈر کے پاس کرنے کے کام بھی بہت ہوتے ہیں ۔ چھوٹے بڑے بے شمار کاموں میں مصروف بھی بہت ہوتا ہے ۔ اپنے طور پر بڑے بڑے مقاصد کو ذہن میں رکھ کے پراجیکٹ بنا رہا ہوتا ہے، دن رات میٹنگ چل رہی ہوتی ہے۔ کئی لوگ آنے والے اور بہت سے لوگوں کے پاس جانا ہوتا ہے مگر بزنس اسے کچھ نہیں دے رہا ہوتا۔ سماج ویسے کا ویسا ہی، تعلیم اور صحت شکستہ حال، اندرونی خلفشار اور بیرونی مذاق ستا رہا ہوتا ہے۔ پریزینٹیشن کے دعوؤں کے برعکس حقائق کی دنیا خاصی مختلف ہوتی ہے۔ جوابات کی تلخی سوالات کی تعداد کم ضرور کرتی ہے مگر کسی طوفان کی بنیاد بھی رکھتی ہے۔ بظاہر اچھا اور کامیاب لیڈر نظر آتا ہے مگر سال بعد رپورٹ منفی کی علامت کے ساتھ سرخ رنگ میں لکھی نظر آتی ہے۔
لیڈر جب اچھے، قابل، سمجھدار لوگ تلاش کرکے اور انہیں تربیت دے کر ایک ایک محاذ کو پُر نہیں کرتا تو افلاطون بھی اکیلا تمام محاذوں کو سنبھال نہیں ہوسکتا۔ تمام ضروری علوم میں اعلیٰ ترین مقام تک تعلیم کا حصول اور ہر ایک کی خداداد صلاحیت کے مطابق کام کی تقسیم، تاکہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کام کرسکے۔ ہر کام اور سروس کا اعلیٰ ترین معیار متعین کرنا اور پھر اس پر مفاہمت نہ کرنا۔ یہ لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ٹیم کے کسی ایک فرد کو بھی فارغ نہ رہنے دے۔ ٹیکنیکل لوگوں کے لیے پختہ فنی کاموں کی فہرست مرتب کروا کر ان لوگوں کو مصروف کرے۔ لوگوں کی ترجیحات کو انتشار کا شکار نہ ہونے دے اور نہ ہی اپنا کام چھوڑ کر دوسرا کام کرنے دے۔ یہ بھی لیڈر ہی کا کام ہے کہ ایک ایک فرد کی معاشی ضرورت اور ذرائعِ معاش کی مکمل معلومات حاصل کرے اور اس کی تمام بنیادی ضروریات کو یقینی بنائے۔ اعتماد اور مہمان نوازی کا ماحول بنانا اور اسے مستقل بنیادوں پر استحکام دینا لیڈر کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ لیڈر اگر ان باتوں پر توجہ نہیں دے گا تو سرخ رنگ سے لکھی منفی رپورٹ ہی اس کا مقدر ہوگی، اس کا دوسرا نام شکست ہے۔
لیڈر کو پہلے دن سے ہی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشکلات کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ رسمِ دنیا ہے کہ جو لیڈر اپنے گروہ، جماعت، ملت، ادارے یا تنظیم کے لیے اچھے اور بہتر مقاصد کا تعین کرتے ہیں ، دنیا ان کو مشکلات زیادہ دیتی ہے۔ لیڈر زندگی کے کسی بھی شعبے کا ہو قابلِ احترام ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا امتحان اس وقت آتا ہے جب اسے اپنی ٹیم بنانی ہوتی ہے۔ اپنے دفتر کے سارے ذمہ داران کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر بے شمار لوگ اس کے قریب ہوتے ہیں۔ زبان کے تیز اور میٹھے بھی، قابلیت اور نااہلیت قریب ہی ہوتی ہے، علم اور جہالت بھی دور نہیں ہوتی۔ امانت اور بددیانتی بھی آس پاس ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح اخلاص اور نفاق بھی دور نہیں ہوتے۔ تجربہ اور ناتجربہ کاری بھی وہیں ہوتے ہیں۔ اپنے اور بیگانے، دوست اور عام آدمی، رشتہ دار اور اجنبی بھی سامنے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ٹیم کا میرٹ پر درست انتخاب بہرحال آسان کام نہیں ہے۔ یہاں جو شخص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس بات کو سامنے رکھے گا کہ دوستو! اپنی تین خواہشات بتاؤ، سب نے بتا دیں تو فرمایا: اللہ تعالیٰ مجھے اس مکان / حویلی کے برابر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان جیسے افراد دے اور میں امت مسلمہ کے تمام اہم مناصب پر انہیں مقرر کردوں اور رہتی دنیا تک امت کے مسائل ختم ہوجائیں۔ اس کے مطابق اصول، معیار اور میرٹ کے مطابق ایک ایک بندے کا انتخاب کرے گا تو وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح اعلیٰ مقام حاصل کرے گا اور دوسری صورت میں تاریخ کا مسافر اسے بددیانت سمجھتا ہے۔
لیڈر کو ٹیم کے انتخاب میں تین باتیں پیش نظر رکھنی ہیں: قابلیت امانت اخلاص
بنیادی بات اتنی ہے کہ مطلوبہ کام کی قابلیت ، فرد کی امانت و دیانت اور اخلاص پر مفاہمت نہیں ہوگی۔ جو لیڈر قابلیت پر مفاہمت کرتا ہے وہ اپنے ادارے اور قابل افراد سے بددیانتی کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی فرد اپنی کسی دوسری وجہ سے آہی جاتا ہے تو پھر اسے فورا ہٹا دیں۔ اگر لیڈر اسے معزول نہیں کرتا تو وہ بھی بددیانتی اور نااہلی کا ثبوت دے رہا ہے۔لیڈر کی یہ ذمہ داری ہے کہ کسی ایسے فرد کو کوئی عہدہ نہ دے جسے کل ہٹانا مشکل ہوجائے۔ اداروں، تنظیموں اور کمپنیوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو صدر صاحب کے قریب قریب ہوں گے ، اپنی کمزوری اور اپنے نانِ شبینہ کے لیے ، ان کے پاس چاپلوسی کے الفاظ اور جملے بہت ہوتے ہیں۔ ان کا بہتر حل یہ ہوتا ہے کہ انہیں کچھ دے کر ذرا فاصلہ پر رکھا جائے۔ اس طرح رشتہ داروں کو بھی دور رکھیں۔ اس ہجوم میں کچھ بے غرض بھی ہوں گے۔ یہ خاموش بھی ہوسکتے ہیں اور بغیر لگی لپٹی کے منہ پر کہنے والے بھی۔ ان پر توجہ دیں اور بہتر اور قابل ٹیم کا انتخاب کریں۔
#yousufalmas #leadersship #careercounselor #Eduvision #careercounselling #career #careerdevelopment