کامیاب انٹرویو
زیادہ تر نوجوان چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرکے اپنے انٹرویو کو خراب کرتے ہیں۔ اکثریت تو بہت بنیادی باتوں سے ناواقف ہوتی ہے۔ اس کی وجوہات کا دائرہ بچپن کے ابتدائی ایام سے شروع ہوتا ہے اور پرائمری سکول، ہائی سکول، کالج اور یونیورسٹی تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی ذمہ داری والدین پر بھی ہے۔ اساتذہ بھی اس میں حصہ دار ہیں اور تعلیمی اداروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جامعات کے اوپن ہاؤسز میں جانا ہو یا انٹرویو پینل میں بیٹھنا ہو۔ سی وی اور انٹرویو کی تیاری کے لیے آنے والے طلبہ و طالبات کاجائزہ صاف بتاتا ہے کہ پوزیشن بہت کمزور ہے۔ جامعات کے سیمینارز بھی بتاتے ہیں کہ تعلیمی اور عملی دائروں کی کمزوریاں تو اپنی جگہ ذاتی دائرے میں بہت زیادہ کمزوریاں موجود ہیں۔ اسی لیے انٹرویو کرنے والے بوریت کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ امیدوار کو پانچ منٹ دینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ لباس سے لے کر آداب اور تعلیم سے لے کر تربیت تک ہر چیز پریشان کن ہوتی ہے۔ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اس نوجوان کو ملازمت نہیں ملے گی تو معاشرے میں ایک اور مایوس بے روزگار کا اضافہ ہوگا۔
آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ پکا ارادہ کرلیں اور اس کے مطابق تیاری کرلیں تو پھر آپ کے انتخاب کو کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ادارے کے سربراہ کو یا افرادی قوت(HR) منیجر کو نہ آپ سے کوئی محبت ہے اور نہ ہی وہ اپنے ادارے کے دشمن ہیں۔ جو نوجوان اپنی ڈگری میں CGPA تین لے سکتا ہے وہ اچھے انٹرویو کی تیاری بھی کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ ارادہ کر لے اور اس کے ساتھ اگر وہ کسی ماہر کونسلر سے ایک سیشن لے گا تو پھر یقیناً آسانی ہوجائے گی۔ اس کے بعد تو پھر کوئی ہوگا جو تیاری نہ کرسکے۔ آج کا یہ کونسلنگ سیشن تحریری ہے۔ آپ کے لیے چند اہم نکات جمع کیے ہیں۔ ان پر توجہ دیں اور مشق کریں ۔ ان شاء اللہ اگلے انٹرویو میں آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔
مسکرانا
انٹرویو دینے والوں کے چہروں پر غور کریں تو کوئی آپ کو سنجیدہ، کوئی سپاٹ، کوئی خوف زدہ، کوئی اپنے کپڑوں اورجوتوں سے پریشان نظر آئے گا ۔ ان میں شاید ہی کوئی پُراعتماد اور خوشگوار چہرہ نظر آئے۔ بات کرتے ہوئے فطری اور حقیقی مسکراہٹ اس کی ہم نوا نہیں ہوتی۔ نہیں معلوم یہ لوگ تھکے ماندے ہیں یا کسی سے ناراض ہیں۔ معاشرے نے انہیں ستایا ہے یا یہ اپنے آپ سے مایوس ہیں ۔ یا پھر مجبور ہو کر یہاں آئے ہیں۔
میرے عزیز! انٹرویو پینل کے سامنے جا کر جسمانی زبان سے آپ کو بتانا ہے کہ میں اس معاشرے کا ایک زندہ و بیدار انسان ہوں۔ نہ تو میں معاشرے پر بوجھ ہوں اور نہ ہی معاشرہ مجھے برا لگتا ہے۔ جو جانتا ہوں وہ میری طاقت ہے اور جو نہیں جانتا اسے نہ تو اپنی کمزوری بننے دوں گا نہ ہی اس سے کسی کو فائدہ اٹھانے دوں گا۔ میں خوش ہوں کہ آپ کے ادارے میں مجھے جاب کا موقع مل رہا ہے۔ لہٰذا میرے ایک ایک لفظ کے ساتھ میرے جسم کا ایک ایک انگ بھی بول رہا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہونا ہی آپ کے انٹرویو میں پچاس فیصد کامیابی دلا دے گا۔ اسی طرزِ فکر کے ساتھ سوالات کے جوابات تمام امیدواروں سے مختلف ہوجائیں گے اور آپ سب میں نمایاں ہو کر کامیابی کے ساتھ باہر آئیں گے۔
ملازمت یا جاب کی ضروریات سمجھیں
کسی بھی کمپنی میں انٹرویو سے دو تین دن پہلے اس بات کو تفصیل سے سمجھیں کہ اس ملازمت کا اعلان کیوں کیا گیا ہے۔ ادارے کی تین چار بنیادی ضروریات ہوں گی۔ ان ضروریات کے نیچے کچھ کام ہوں گےجو کرنے کے ہوں گے اور کچھ نتائج بھی ہوں گے جو آپ سے متوقع ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ خاص مہارتیں Sills بھی درکار ہوں۔ ان سب نکات کے بارے میں جتنی زیادہ معلومات ہوں گی، اتنا ہی ذہن واضح رخ اختیار کرے گا اور جتنا ذہن واضح ہو گا اسی قدر آپ میں اعتماد آئے گا۔ جب اعتماد ہو تو الفاظ اور جملے مضبوط اور چہرہ ہشاش بشاش ہوتا ہے ۔
معلومات کے حصول سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سافٹ ویئر کا تجربہ اور ہاتھ اور ذہن میں ہم آہنگی اور پھرتی بھی چاہیے۔ آپ کے پاس تجربہ بھی ہے اور تیزی بھی مگر اس بات کو کہنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ آپ سیدھا سیدھا کہتے ہیں کہ میرے پاس پانچ سال کا تجربہ ہے۔ یہ جواب درست نہیں ہے۔ آپ یہی بات اس انداز سے بھی کہہ سکتے ہیں : میرے پاس مکمل سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کے لائف سائیکل کے ذریعہ ٹیم کی قیادت کرکے گاہک کو مطمئن کرنے کا پانچ سال کا تجربہ ہے۔
بات کرتے ہوئے ان کی ضروریات والے الفاظ بولیں۔ ہر نکتے کی مہارت سے وضاحت کریں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ آج کے اکثر نوجوان جس ملازمت کے انٹرویو کے لیے جارہے ہوتے ہیں۔ اس جاب کے بارے میں بھی نہیں جانتے۔ آپ کا یہ رویہ اداروں کو آپ کی غیر سنجیدگی کا پیغام دیتا ہے۔ جوفرد ملازمت حاصل کرنے کے لیے یہ رویہ رکھتا ہے وہ اپنی نوکری کو بچانے کے لیے کسی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا؟ حصول رزق کے کاموں کو مذاق اور شغل نہ بنائیں۔
کمپنی یا ادارے کی تحقیق کریں
جس ادارے میں آپ انٹرویو دینے جارہے ہیں، اس کی مکمل معلومات آپ کی انگلیوں پر ہونی چاہیے۔ کمپنی کا کاروباری ماڈل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کمپنی کیا بناتی، کیا بیچتی ہے اور کیا پیش کرتی ہے۔ ذرائع آمدن کیاکیا ہیں؟ مارکیٹ میں ادارے کا حصہ کتنا ہے؟ کمپنی کی لیڈرشپ میں کون کون ہیں؟ ان کی تعلیم اور دیگر معلومات ضرور حاصل کریں۔ دوران انٹرویو ان باتوں کا مناسب انداز سے اظہار بھی کردیں۔ تیسری اہم بات ادارے یا تنظیم کا مشن ہے۔ ہر ادارہ اپنے مشن کے مطابق ہی ساری سرگرمیاں ترتیب دیتا ہے۔ لہٰذا آپ کو بھی حاضر دماغی کے ساتھ اپنے جوابات کو مشن سے جوڑنا ہے اور سرگرمیوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
ہم کیوں ، کا جواب دیں
اکثر طلبہ و طالبات کا خیال ہے کہ یہ غیر ضروری سوال ہے اور بظاہر عجیب بھی ہے کہ ، جناب بتائیں ، آپ اس ادارے میں ہی کیوں آنا چاہتے ہیں؟۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب صرف وہ طالب علم ہی دے گا جس نے اس انٹرویو کے لیے پوری طرح تیاری کی ہوگی اور جو جاب کی ضروریات کو صد فی صد اپنی صلاحیتوں ، قابلیتوں اور اپنی منفرد خصوصیات سے جوڑ سکتا ہوگا۔ پورا انٹرویو ہی اسی ایک سوال پر مکمل کیا جا سکتاہے۔ آپ کو واضح طور پر ثابت کرنا ہے کہ میں ہی وہ امیدوار ہوں جو اس پوسٹ پر بہترین نتائج دے سکتاہے۔ اس سوال کے جواب میں آپ نے تین نکات پر بات کرنی ہے۔ یعنی آپ علم کے اعتبار سے اعلیٰ سطح پر ہیں، صلاحیت کے حوالے سے آپ مکمل ہیں اور آپ کا رویہ بھی ایساہے جو ادارے کے مقاصد اور دیگر افراد کے لیے سہولت اور تعاون کا باعث بنے گا۔
اپنی کمزوریوں کو تسلیم کریں
بعض امیدوار کہتے ہیں ، مجھے کوئی بھی کام دے دیں میں کر لوں گا، میں آل راؤنڈر ہوں، میں تمام شعبوں میں یکساں طور پر مضبوط ہوں۔ یہ ساری باتیں غلط اور خلافِ واقع ہیں۔ انٹرویو لینے والے بہت آسانی سے اس بات کو جان جاتے ہیں۔ یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ دنیا کے تمام انسانوں میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں بھی ہیں لہٰذا ان کو چھپانے اور شرمانے کی ضرورت نہیں۔ بس ان کا اظہار مناسب انداز سے ہونا اہم ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح آپ بنیادی طور پر کمزور پوزیشن پر چلے جاتے ہیں۔ اس بات کا تیسرا پہلو آپ کے ایماندارانہ تجزیے اور رائے کا ہے۔ اس سوال کے جواب میں بہت متوازن بات کرنا ضروری ہے۔ ورنہ انٹرویو سےآپ کو نکال دیا جائے گا۔
اپنا سیل فون نہ لائیں
انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے اپنا سیل فون نہ لائیں۔ یا کم از کم اپنے فون کو مکمل بند کردیں۔ دوران انتظار فون کا استعمال نہ کریں۔ ہوسکتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہو۔ فرض کیا موبائل آپ کے پاس ہے اور سائیلنٹ ہے۔ دوران انٹرویو کال آجائے تو اگر آواز نہ بھی آئے لیکن آپ کی توجہ بٹ جائے گی۔ آپ کی بات کی روانی ٹوٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ فون کا بجنا خلاف ادب بھی ہے۔ لہٰذا فون رکھنے کی صورت میں سارا نقصان آپ ہی کا ہوگا۔
آپ نے اگر سوال پوچھنا ہو؟
عام طور پر یہ سوال انٹرویو کا آخری سوال ہی ہوتا ہے۔ اس طرح کی بات بالکل نہیں کریں کہ ، کوئی سوال نہیں، میرے سوالوں کے جوابات پہلےہی آگئے ہیں۔ انٹرویو کی تیاری کرتے ہوئے کچھ سوالات تیار کریں۔ اور جب وہ آپ سے پوچھیں تو آپ مناسب انداز سے ان سوالات میں سے کچھ ضرور پوچھیں مثلاً:
اس کمپنی کا کلچر کس طرح کا ہے؟
کیا اس عہدے پر ترقی کے مواقع موجود ہیں؟
اس عہدے کا ایک عام دن کس طرح کا ہے؟ یعنی اس کی معمولات کیا ہیں؟
یہ عہدہ کس کو رپورٹ کرتا ہے؟
ذاتی نوعیت کا شکریہ
آخری بات یہ ہے کہ آپ منیجر یا چیف ایگزیکٹیو آفیسر کا شکریہ ادا کریں کہ انہوں نے بلایا اور وقت دیا۔ کوئی شکریے کے نوٹ کی پرواہ کرے یا نہ کرے مگر شکریہ کسی بھی صورت برا کام نہیں۔ اس میں صرف بھلائی ہی ہے۔ آپ کا یہ شکریہ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ آپ کے سی وی کو دوبارہ دیکھا جائے۔ آپ کے لیے جگہ بنائی جائے۔ حتیٰ کہ ردی کی ٹوکری سے بھی نکالا جائے۔ یہ شکریہ نوٹ عام طور پر ای میل کیا جاتا ہے۔ یا پھر واٹس ایپ پیغام کے ذریعہ۔ لیکن میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ متعلقہ منیجر کا پوسٹل ایڈریس حاصل کریں اور اپنے ہاتھ سے لکھ کر ڈاک یا کوریئر کے ذریعے بھیج دیں۔ شکریے کی عبارت کہیں سے نقل نہ کریں بلکہ خود اپنے آپ سے لکھیں۔ یقین مانیں یہ اعلیٰ اخلاق کا اظہار اپنا لوہا ضرور منوائےگا۔
یہ آٹھ نکات کے ذریعہ آپ پورے انٹرویو کو اپنے حق میں بنانے کی قابلیت پیدا کر سکتےہیں۔ یہ نکات آپ کو اعتماد دیں گے۔ اداروں اور دوسروں کے لیے قابل بھروسہ بنائیں گے اور آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے آپ کو آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دیں گے۔