انقلابی لیڈر

یوسف الماس

 انقلابی نہ جمود سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی رکنا اس کی لغت میں ہے۔ وہ ہر محاذ پر متحرک نظر آتا ہے۔ وہ  ہر نئی چیز ، ٹیکنالوجی، نیا ماحول سیکھتا ہے اور اختیار کرتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ سیکھنے والے ہر وقت سیکھتے ہیں۔ یہ ایک رویے کا نام ہے، جس سے ذہن کھلتا اور طبیعت میں ٹھہراؤ آتا ہے۔ ادب اور احترام سیکھنے کا پہلا قرینہ ہے اور اسی میں انسانوں کی مراد ہے۔ انقلاب کے لیے مؤاخات یعنی اخوت اور بھائی چارہ  ضروری ہے اور مؤاخات کی کامیابی کا راز علم وحکمت کی نسل در نسل منتقلی میں ہے۔ انقلاب آپ میں ایسی مہارت مانگتا ہے جس پر سالوں کے تجربے کا گمان گزرے۔ غیر یقینی حالات تو انقلابیوں کو ہر دور میں ملتے رہے ہیں مگر ان میں اپنے آپ کو سنبھالنا ہی اہم ہوتا ہے۔سنبھلنے اور چلنے کا رویہ اجتماعی دانش کے استعمال کو ممکن بناتا ہے۔ انقلابیت اور مایوسی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ انقلابی پُر امید اور پُرجوش ہوتا ہے۔ اس لیے کہ مایوس شخص کو بہترین مواقع میں مشکلات نظر آتی ہیں اور ایک پُرامید اور پُرجوش انسان کو ہر مشکل میں کامیابی اور بہتری کا موقع نظر آتا ہے۔ سماج کے لیے کام کرنے والا حقیقی لیڈر ہر کسی کے مفاد کا خیال رکھتا ہے۔ وہ ہر بات میں الجھنے کی بجائے ڈھانچہ بنائے گا، معمول کے کاموں کو چلائے گا مگر اپنی توجہ کا مرکز دو یا تین شعبوں کو  رکھے گا۔ تیزی سے بدلتے حالات میں نئے طریقے اور نئے انداز اپنا کر حریفوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔ مگر ہمسفروں کے لیے حوصلے اور توانائی کا باعث بنتا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ بڑوں کی صحبت سے حاصل ہونے والا  علم، مہارت اور تجربہ آسانی پیدا کردیتا ہے۔ آبادیوں کی تہذیب و ثقافت بدلنے والا لیڈر اپنی فکر و نظر اور خیالات و آراء پر اچھی گرفت رکھتا ہے تاکہ سمت درست رہے اور دلوں میں ٹیڑھ نہ آئے۔ آخر ی بات یہ ہے کہ وہ وژن، مشن اور طریق کار کے حوالے سے ہر فرد کو ایک صفحے پر رکھتا ہے۔ نئی سروسز ، پروگرام اور مصنوعات جتنی چاہیں آئیں مگر صف بندی خراب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

Leave a Comment

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin